حرمت ِسُود

By سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

کیا فی الواقع سود ایک معقول چیز ہے؟ 

 

Hurmat-sood

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۔ سلبی پہلو

اسلامی نظمِ معیشت اور اس کے ارکان کو جو مختصر خاکہ پچھلے باب میں پیش کیا گیا ہے اس میں چار چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں:

۱۔ آزاد معیشت چند حدود و قیود کے اندر۔

۲۔ زکواۃ کی فرضیت۔

۳۔ قانون میراث

۴۔ سود کی حرمت

ان میں پہلی چیز کو کم از کم اصولی طو رپر وہ سب لوگ اب درست تسلیم کرنے لگے ہیں جن کے سامنے بے قید سرمایہد اری کی قباحتیں اور اشتراکیت وفاشیت کی شناعتیں بے نقاب ہوچکی ہیں۔ اس کی تفصیلات کے بارے میں کچھ اُلجھنیںذہنوں میں ضرور پائی جاتی ہیں‘ مگر ہمیں امید ہے کہ ہمارے کتاب ’’اسلام جدید معاشی نظریات‘‘ اور ’’مسئلہ ملکیت زمین‘‘ کا مطالعہ انہیں دور کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔

فرضیت زکوٰۃ کی اہمیت اب بڑی حد تک دنیا کے سامنے واضح ہوچکی ہے۔ کسی صاحبِ نظر سے یہ بات مخفی نہیں رہی ہے کہ اشتراکیت ‘ فاشزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت‘ تینوں نے اب تک سوشل انشورنس کا جو وسیع نظام سوچا ہے‘ زکوٰۃ اس سے بہت زیادہ وسیع پیمانے پر اجتماعی انشورنس کا انتظام کرتی ہے۔ لیکن یہاں بھی کچھ اُلجھنیں زکوٰۃ کے تفصیلی احکام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پیش آئی ہیں۔ اور لوگوں کے لیے یہ بات سمجھنی بھی مشکل ہورہی ہے کہ ایک جدید ریاست کے مالیات میں زکوٰۃ و خمس کو کس طرح نصب کیا جاسکتا ہے۔ ان اُلجھنوں کو دُور کرنے کے لیے انشاء اللہ ایک مختصر رسالہ احکام زکوٰۃ پر مرتب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

قانون میراث کے بارے میں اسلام نے تمام دنیا کے قوانین وراثت سے ہٹ کر جو مسلک اختیار کیا ہے‘ پہلے اس کی حکمتوں سے بکثرت لوگ ناواقف تھے او رطرح طرح کے اعتراضات پر کرتے تھے‘ لیکن اب بتدریج ساری دنیا اس کی طرف رجوع کرتی جارہی ہے۔ حتی کہ روسی اشتراکیت کو بھی ان کی نوشہ چینی کرنی پڑی ہے۔۱؎

مگر اس نقشے کے چوتھے جُز کو سمجھنے میں موجودہ زمانے کے لوگوں کو سخت مشکل پیش آرہی ہے۔ سرمایہ دارانہ علمِ معیشت نے پچھلی صدیوں میں یہ تخیل بڑی گہری جڑوں کے ساتھ جمادیا ہے کہ سود کی حرمت محض ایک جذباتی چیز ہے‘ اور یہ کہ بلاسود کسی شخص کو قرض دینا محض ایک اخلاقی رعایت ہے جس کا مطالبہ مذہب نے خواہ مخواہ اس قدر مبالغہ کے ساتھ کردیا ہے ورنہ منطقی حیثیت سے سود سراسر ایک معقول چیز ہے اور معاشی حیثیت سے وہ صرف ناقابلِ اعتراض ہی نہیں بلکہ عملاً مفید اور ضروری بھی ہے۔ اس غلط نظریہ اور اس کی اس پُرزور تبلیغ کا اثر یہ ہے کہ جدید نظام سرمایہ داری کے تمام عیوب پر تو دنیا بھر کے ناقدین کی نگاہ پڑتی ہے مگر اس سب سے بڑے بنیادی عیب پر کسی کی نگاہ نہیں پڑتی۔ حتی کہ روس کے اشتراکی بھی اپنی مملکت میں سرمایہ دارانہ نظام کی اس ام الخبائث کو برطانیہ اور امریکا ہی کی طرح پرورش کررہے ہیں اور حد یہ ہے کہ خود مسلمان بھی‘ جن کو دنیا میں سُود کا سب سے بڑا دشمن ہونا چاہیے‘ مغرب کے اس گمرہ کن پروپیگنڈا سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ ہمارے شکست خوردہ اہلِ مذہب میں یہ عام غلط فہمی پھیل گئی ہے کہ سُود کوئی قابلِ اعتراض چیز اگر ہے بھی تو صرف اُس صورت میں جب کہ وہ اُن لوگوں سے وصول کیا جائے جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں‘ رہے وہ قرضے جو کاروبار میں لگانے کے لیے حاصل کیے گئے ہوں‘ تو ان پر سود کا لین دین سراسر جائز و معقول اور حلال و لیب ہے ‘ اور اس میں دین‘ اخلاق‘ عقل اور اصولِ علم معیشت ‘ کسی چیز کے اعتبار سے بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس پر مزید وہ خوش فہمیاں ہیں جن کی بناء پر قدیم طرز کے بنیوں اور ساہوکاروں کی سود خواری سے موجودہ زمانہ کے بینکنگ کو ایک مختلف چیز سمجھا سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اِن بینکوں کا ’’ستھرا‘‘ کاروبار تو بالکل ایک پاکیزہ چیز ہے جس سے ہر قسم کا تعلق رکھا جاسکتا ہے۔ اسی بناء پر اب سود کی شرعی تعریف بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ قرآن میں جس سود کو حرام کیاگیا ہے اس کی تعریف میں یہ سود سرے سے آتا ہی نہیں۔ ان تمام مغالطوں کے چکر سے جو لوگ نکل گئے ہیں وہ بھی یہ سمجھنے میں مشکل محسوس کررہے ہیں کہ سود کو قانوناً بند کردینے کے بعد موجودہ زمانہ میں مالیات کا نظم کس طرح قائم ہوسکتا ہے۔

سُود کی عقلی توجیہات

سب سے پہلے جس بات کو طَے ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا فی الواقع سود ایک معقول چیز ہے؟ کیا درحقیقت عقل کی رَو سے ایک شخص اپنے دیئے ہوئے قرض پر سود کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے؟ اور کیا انصاف یہی چاہتا ہے کہ جو شخص کسی سے قرض لے وہ اس کو اصل کے علاوہ کچھ نہ کچھ سود بھی دے؟ اس بحث کا اولین سوال ہے اور اس کے طے ہونے سے آدھی سے زیادہ بحث آپ سے آپ طے ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اگر سود اگر ایک معقول چیز ہے تو پھر تحریم سود کے مقدمے میں کوئی جان باقی نہیں رہتی اور اگر سود کو عقل و انصاف کی رو سے درست ثابت نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ امر غور طلب ہوجاتا ہے کہ انسانی معاشرے میں اس نامعقول چیز کو باقی رکھنے پر آخر کیوں اصرار کیا جائے؟

توجیہہ اوّل

اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے جس دلیل سے ہم کو سابقہ پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کو اپنا پس انداز کیا ہوا مال قرض دیتا ہے وہ خطرہ مول لیتا ہے ‘ ایثار کرتا ہے‘ اپنی ضرورت روک کر دوسرے کی ضرورت پوری کرتا ہے‘ جس مال سے وہ خود فائدہ اٹھا سکتا تھا اسے دوسرے کے حوالہ کرتا ہے۔ قرض لینے والے نے اگر قرض اس لیے لیا ہے کہ اپنی کوئی ذاتی ضرورت اس سے پوری کرے تو اسے اس مال کا کریہ ادا کرنا چاہیے ‘ جس طرح وہ مکان یا فرنیچر یا سواری کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ یہ کرایہ اُس خطرے کا معاوضہ بھی ہوگا کہ دائن نے اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت خود استعمال کرنے کے بجائے اس کو اتعمال کرنے کے لیے دے دی۔ اور اگر مدیون نے یہ قرض کسی نفع آور کام یں لگانے کے لیے لیا ہے تو پھر تو دائن اس پر سود مانگنے کا بدرجۂ اولیٰ مستحق ہے۔ جب مدیون اس کی دی ہوئی دولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو آخر دائن اس فائدے میں سے کیوں نہ حصہ پائے؟

اس توجیہہ کا یہ حصہ بالکل درست ہے کہ قرض دینے والا اپنا مال دوسرے کے حوالہ کرنے میں خطرہ بھی مول لیتا ہے اور ایثار بھی کرتا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ وہ اس خطرے اور ایثار کی قیمت پانچ یا دس فیصد سالانہ یا ششماہی یا ماہوار کے حساب سے وصول کرنے کا حق رکھتا ہے؟ خطرے کی بنیاد پر جو حقوق معقول طریقہ سے اس کو پہنچتے ہیں وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہیںکہ وہ مدیون کی کوئی چیز رہن رکھ لے‘ یا اُس کی کسی چیز کی کفالت پر قرض دے‘ یا اس سے کوئی ضامن طلب کرے‘ یا پھر سرے سے خطرہ ہی مول نہ لے اور قرض دینے سے انکار کردے۔ مگر خطرہ نہ تو کوئی مالِ تجارت ہے جس کی کوئی قیمت ہو اور نہ کوئی مکان یا فرنیچر یا سواری ہے کہ اس کا کوئی کرایہ ہوسکے۔ رہا ایثار تو وہ اُسی وقت تک ایثار ہے جب تک کہ وہ کاروبار نہ ہو۔ آدمی کو ایثار کرنا ہو تو پھر ایثار ہی کرے اور اس اخلاقی فعل کے اخلاقی فوائد پر راضی رہے۔ اور اگ روہ معاوضے کی بات کرتا ہے تو پھر ایثار کا ذکر نہ کرے بلکہ سیدھی طرح سوداگری کرے اور یہ بتائے کہ وہ قرض کے معاملہ میں اصل رقم کے علاوہ ایک مزید رقم ماہواریا سالانہ کے حساب سے وصول کرتا ہے اس کا آخر وہ کس بنیاد پر مستحق ہے؟

کیا یہ ہرجانہ؟ مگر جو رقم اس نے قرض دی ہے وہ اس کی ضرورت سے زائد تھی‘ اور اسے وہ خود استعمال بھی نہیں کررہا تھا۔ اس لیے یہاں فی الواقع کوئی ’’ہرج‘‘ واقع ہی نہیں ہُوا کہ اپنے دیئے ہوئے اس قرض پر وہ کوئی ’’ہرجانہ‘‘ لینے کا مستحق ہو۔

کیا یہ کرایہ ہے؟ مگر کرایہ تو ان چیزوں کا ہوا کرتا ہے جنہیں کرایہ دار کے لیے مہیا کرنے اور درست رکھنے پر آدمی اپنا وقت‘ محنت اور مال صرف کرتا ہے اور جو کرایہ دار کے استعمال سے خراب ہوتی ہیں‘ ٹوٹتی پھوٹتی ہیں اور اپنی قیمت کھو دیتی ہیں۔ یہ تعریف اشیائے استعمال‘مثلاً مکان ‘ فرنیچر اور سواری وغیرہ پر تو صادق آتی ہے اور انہی کا کرایہ ایک معقول چیز ہے‘ لیکن اس تعریف کا اطلاق کسی طرح بھی نہ تو اشیاء صرف‘ مثلاً گیہوں اور پھل وغیرہ پر ہوتا ہے اور نہ روپے پر ہوتا ہے جو محض اشیاء اور خدمات خریدنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے ان چیزوں کا کرایہ ایک بے معنی چیز ہے۔

زیادہ سے زیادہ ایک دائن جو کچھ کہہ سکتا ہے۔وہ یہ ہے کہ میں دوسرے شخص کو اپنے مال سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے رہا ہوں‘ لہٰذا مجھے اس فائدے میں سے حصہ ملنا چاہیے۔ یہ البتہ ایک معقول بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس فاقہ کش آدمی نے اپنے بھوکے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے تم سے ۵۰ روپے عاریتاً حاصل کیے ہیں ‘ کیا واقعی وہ تمہارے دیئے ہوئے غلے یا روپے سے ایسا ہی ’’فائدہ‘‘ اٹھارہا ہے جس میں سے تم ایک چھٹانک فی سیر یا دو روپے فیصد ماہوار کے حساب سے اپنا حصہ پانے کے مستحق ہو؟ فائدہ تو وہ بے شک اٹھا رہا ہے۔ اس استفادے کا موقع بلاشبہ تم نے ہی اسے دیا ہے‘ لیکن عقل‘ انصاف معاشی علم‘ کاروباری اصول‘ آخر کِس چیز کی رُو سے اس فائدے اور اس موقع استفادہ کی یہ نوعیت قرارپاتی ہے کہ تم اس کی ایک مالی قیمت مشخص کرو‘ اور قرض مانگنے والے کی مصیبت جتنی زیادہ سخت ہو اتنی ہی یہ قیمت بھی ز یادہ ہوجائے اور اس کی مصیبت زدگی کازمانہ دراز ہوتا جائے تمہارے دیئے ہوئے اس ’’موقع استفاد ‘‘کی قیمت بھی مہینوں اور برسوں کے حساب سے اُس پر بڑھتی اور چڑھتی چلی جائے؟ تم اگر اتنا بڑ دل نہیں رکھتے کہ ایک حاجت مند اور آفت رسیدہ انسان کو اپنی ضرورت سے زائد بچا ہوا مال عطا کردو‘ تو حد سے حد جو بات تمہارے لیے معقول ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی رقم کی واپسی کا اطمینان کرکے اسے قرض دے دو۔ اور اگر تمہارے دل میں قرض دینے کی بھی گنجائش نہیں ہے تو بدرجۂ آخر یہ بھی ایک معقول بات ہوسکتی ہے کہ تم سرے سے اس کو کچھ نہ دو مگر کاروبار اور تجارت کی یہ کون سی معقول صورت ہے کہ ایک شخص کی مصیبت اور تکلیف تمہارے لیے نفع اندوزی کا موقع ٹھیرے ‘ بھوکے پیٹ اور جاں بلب مریض تمہارے لیے روپیہ لگانے (Investment) کی جگہ قرار پائیں اور انسانی مصائب جتنے بڑھیں اتنے ہی تمہارے نفع کے امکانات بھی بڑھتے چلے جائیں؟

’’فائدہ اٹھانے کا موقع دینا‘‘ اگر کسی صورت میں کوئی مالی قیمت رکھتا ہے تو وہ صرف دو صورت ہے جبکہ روپیہ لینے والا اسے کسی کاروبار میں لگا رہا ہو۔اس صورت میں روپیہ دینے والا یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ مجھے اُس فائدے میں سے حصہ ملنا چاہیے جو میرے روپے سے دوسرا شخص اٹھا رہا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے سرمایہ بجائے خود کوئی منافعہ پیدا کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا بلکہ وہ منافعہ صرف اس صورت میں پیدا کرتا ہے جب انسانی محبت و ذہانت اس پر کام کرے۔ پھر انسانی محنت و ذہانت اس کے ساتھ لگتے ہی منافعہ پیدا کرنا نہیں شروع کردیتی‘ بلکہ اس کے نفع آور ہونے میں ایک مدد درکار ہوتی ہے۔ مزید برآں اس کا نفع آور ہونا یقینی نہیں ہے‘ اس میں نقصان اور دیوالیہ کا بھی امکان ہے اور نفع آور ہونے کی صورت میں بھی یہ پیشگی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کس وقت کتنا نفع پیدا کرے گی۔ اب یہ بات کس طرح معقول ہوسکتی ہے کہ روپیہ دینے والے کا منافعہ اسی وقت سے شروع ہوجائے جبکہ انسانی محنت و ذہانت نے اس روپے کو ابھی ہاتھ ہی لگایا ہو؟ اور اس کے منافعہ کی شرح اور مقدار بھی معین ہو۔ جب کہ سرمایہ کے ساتھ انسانی محنت کے ملنے سے نفع پیدا ہونا نہ تو یقینی ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس سے فی الواقع کتنا نفع پیدا ہوگا؟

معقولیت کے ساتھ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنا پس انداز کیا ہوا روپیہ کسی نفع آور کام میں لگانا چاہتا ہو اسے محنت کرنے والوں کے ساتھ شراکت کا معاملہ کرنا چاہیے اور نفع میں ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصہ دار بن جانا چاہیے۔ نفع کمانے کا یہ آخر کون سا معقول طریقہ ہے کہ میں ایک شخص کا شریک بننے کے بجائے اُسے سو روپے قرض دوں اور اس سے خہوں کہ چو نکہ تو اس رقم سے فائدہ اٹھائے گا اس لیے تجھ پر میرا یہ حق ہے کہ مجھے مثلاً ایک روپیہ ماہوار اس و قت تک دیتا رہ جب تک میرے یہ روپے تیرے کاروبار میں استعمال ہورہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ جب تک اس سرمایہ کو استعمال کرکے اس کی محنت نے نفع پیدا کرنا نہ شروع کیا ہو اس وقت تک آخر وہ کون سا منافعہ موجود ہے جس میں سے حصہ مانگنے کا مجھے حق پہنچتا ہو؟ اگر وہ شخص کاروبار میں فائدے کے بجائے نقصان اٹھائے تو میں کس عقل و انصاف کی رو سے یہ ماہوار ’’منافع‘‘ اس سے وصول کرنے کا حق رکھتا ہوں؟ اور اگر س کا منافع ایک روپیہ ماہوار سے کم رہے تو مجھے ایک روپیہ ماہوار لینے کا کیا حق ہے؟ اور اگر اس کا کل منافع ایک ہی روپیہ ہو تو کون سا انصاف یہ جائز رکھتا ہے کہ جس شخص نے مہینہ بھر تک اپنا وقت‘ محنت‘ قابلیت اور ذاتی سرمایہ‘ سب کچھ صرف کیا وہ تو کچھ نہ پائے اور میں صرف سو روپے اس کو دے کر الگ ہوگیا تھا‘ اس کا سارا منافع لے اُڑوں؟ ایک بیل بھی اگر تیلی کے لیے دن بھر کولہو چلاتا ہے تو کم از کم اس سے چارہ مانگنے کا حق تو ضرور رکھتا ہے۔مگر یہ سودی قرض ایک کاروباری آدمی کو وہ بیل بنادیتا ہے جسے کولہو تو دن بھر میرے لیے چلانا چاہیے اور چارہ کہیں اور سے کھانا چاہیے۔

پھر اگر بالفرض ایک کاروباری آدمی کا منافع اس متعین رقم سے زائد بھی رہے جو قرض دینے والے سُود کے طور پر اس کے ذمہ لگائی ہو‘ تب بھی عقل‘ انصاف‘ اصولِ تجارت اور قانونِ معیشت ‘ کسی چیز کی رو سے بھی اس بات کو معقول ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ تاجر‘ صناع ‘ کاشت کار اور دوسرے تمام وہ لوگ جو اصل عاملینِ پیدائش ہیں‘ جو سوسائٹی کی ضروریات تیار اور فراہم کرنے میں اپنے اوقات صرف کرتے ہیں‘ محنتیں برداشت کرتے ہیں دماغ لڑاتے ہیں‘ اور اپنے جسم و ذہن کی ساری قوتیں کھپادیتے ہیں‘ اُن سب کا فائدہ تو مشتبہ اور غیر متعین ہو مگر صرف اس ایک آدمی کا فائدہ یعنی اور معین ہو جس نے اپنی پس انداز کی ہوئی رقم قرض دے دی ہے۔ اُن سب کے لیے تو نقصان کا خطرہ بھی ہو مگر اس کے لیے خالص نفع کی گارنٹی ہو۔ اُن سب کے نفع کی شرح بازار کی قیمتوں کے ساتھ گرتی اور چڑھتی رہے ‘ مگر یہ ایک اللہ کا بندہ جو نفع اپنے لیے طے کرچکا ہے وہ اسے جوں کا توں ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال ملتا رہے۔

توجیہ دوم:

اس تنقید سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بادی النظر میں سود کو ایک معقول چیز قرار دینے کے لیے جو دلائل کافی سمجھ لیے جاتے ہیں‘ ذرا گہرائی میں جاتے ہی ان کی کمزوری کھلنی شروع ہوجاتی ہے۔ جہاں تک اس قرض کا تعلق ہے جو شخصی حاجات کے لیے لیا جاتا ہے‘ اس پر سود عائد ہونے کے لیے تو سرے سے کوئی عقلی دلیل موجود ہی نہیں ہے‘ حتیٰ کہ حامیان سُود نے خود ہی اس کمزور مقدمے سے ہاتھ اٹھالیا ہے۔ رہا وہ قرض جو کاروباری اغراض کے لیے لیا جاتا ہے‘ تو اس کے بارے میں بھی حامیانِ سُود کو اس پیچیدہ سوال سے سابقہ پیش آتا ہے کہ سود آخرکس چیز کی قیمت ہے؟ ایک دائن اپنے سرمایہ کے ساتھ مدیون کو وہ کون سی جوہری (Substanial) چیز دیتا ہے جس کی ایک مالی قیمت اور وہ بھی ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال اور…………مانگنے کا اسے حق پہنچتا ہو؟ اُس چیز کے مشخص کرنے میں حامیانِ سود کو خاصی پریشانی پیش آئی ہے۔

ایک گروہ نے کہا کہ وہ ’’فائدہ اٹھانے کا موقع‘‘ ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر کی تنقید سے آپ کو معلوم ہو چکا ہے ‘ یہ ’’موقع‘‘ کسی متعین اور یقینی اور روز افزوں قیمت کا استحقاق پیدا نہیں کرتا‘ بلکہ صرف اس صورت میں ایک متناسب نفع کا استحقاق کرتا ہے جبکہ فی الواقع روپیہ لینے والے کو نفع ہو۔

دوسرا گروہ تھوڑی سی پوزیشن تبدیل کرکے کہتا ہے کہ وہ چیز ’’مہلت‘‘ ہے جو دائن اپنے سرمایہ کے ساتھ اس کے استعمال کے لیے مدیون کو دیتا ہے۔ یہ مہلت بجائے خود اپنی ایک قیمت رکھتی ہے اور جس قدر یہ دراز ہوتی جائے اس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس روز آدمی روپیہ لے کر کام میں لگاتا ہے۔ اس روزسے لے کر اس دن تک جب کہ اس سرمایہ کے ذریعہ سے تیار کیا ہوا مال بازار میں پہنچے اور قیمت لائے ایک اک لمحہ کاروباری آدمی کے لیے قیمتی ہے۔ یہ مہلت اگر اسے نہ ملے اور بیچ ہی میں سرمایہ اس سے واپس لے لیا جائے تو سرے سے اس کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا یہ وقت روپیہ لے کر لگانے والے کے لیے یقیناایک قیمت رکھتا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا رہا ہے‘ پھر کیوں نہ روپیہ دینے والا اس فائدہ میں سے حصہ لے؟ اور اس وقت کی کمی و بیشی کے ساتھ مدیون کے لیے نفع کے امکانات بھی لامحالہ کم و بیش ہوتے ہیں‘ پھر کیوں نہ دائن وقت ہی کی درازی و کوتاہی کے لحاظ سے اس کی قیمت مشخّص کرے؟

مگر یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر روپیہ دینے والے کو کس ذریعۂ علم سے یہ معلوم ہوگیا کہ جو شخض کام لگانے کے لیے ا س سے روپیہ لے رہا ہے وہ ضرور نفع ہی حاصل کرے گا‘ نقصان سے دوچار نہ ہوگا؟ اور پھر یہا س نے کیسے جانا کہ اُس کا نفع بھی لازماً اِس قدر فی صدی رہے گالہٰذا یہ وقت روپیہ لے کر لگانے والے کے لیے یقیناً ایک قیمت رکھتا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا رہا ہے‘ پھر کیوں نہ روپیہ دینے والا اس فائدہ میں سے حصہ لے؟ اور اس وقت کی کمی و بیشی کے ساتھ مدیون کے لیے نفع کے امکانات بھی لامحالہ کم و بیش ہوتے ہیں‘ پھر کیوں نہ دائن وقت ہی کی درازی و کوتاہی کے لحاظ سے اس کی قیمت مشخّص کرے؟

مگر یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر روپیہ دینے والے کوکس ذریعۂ علم سے یہ معلوم ہوگیا کہ جو شخص کام لگانے کے لیے اس سے روپیہ لے رہا ہے وہ ضرور نفع ہی حاصل کرے گا‘ نقصان سے دوچار نہ ہوگا؟ اور پھر یہ اس نے کیسی جانا کہ اُس کا نفع بھی لازماً اِس قدر فیصد رہے گا‘ لہٰذا ضرور اتنے فیصدی اس کو روپیہ دینے والے کا حصہ ادا کرنا چاہیے؟ اور پھر اس کے پاس یہ حساب لگانے کا آخر کیا ذریعہ ہے کہ وہ وقت جس کے دوران میں وہ مدیون کو اپنے روپے کے استعمال کی مہلت دے رہا ہے لازماً ہر مہینے اور ہر سال اتنا نفع لاتا رہے گا ۔ لہٰذا ضرور اُس کی ماہوار یا سالانہ قیمت یہ قرار پانی چاہیے؟ ان سوالات کا کوئی معقول جواب حامیانِ سود کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ کاروباری معاملات میں اگر کوئی چیز معقول ہے تو وہ صرف نفع و نقصان کی شرکت اور متناسب حصہ داری ہے نہ کہ سود جو ایک متعین شرح کے ساتھ عائد کر دیا جائے۔

توجیہہ سوم

ایک اور گروہ کہتا ہے کہ نفع آوری سرمایہ کی ذاتی صفت ہے، لہٰذا ایک شخص کا دوسرے کے فراہم کردہ سرمایہ کو استعمال کرنا بجائے خود اس امر کا استحقاق پیدا کرتا ہے کہ دائن سود مانگے اور مدیون ادا کرے۔ سرمایہ یہ قوت رکھتا ہے کہ اشیاء ضرورت کی تیاری و فراہمی میں مددگار ہو۔ سرمایہ کی مدد سے اتنا سامان تیار ہوتا ہے جتنا اس کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سرمایہ کی مدد شامل حال ہونے سے زیادہ مقدار میں زیادہ اچھا مال تیار ہوتا ہے اور اچھی قیمت دینے والی منڈیوں تک پہنچ سکتا ہے ورنہ کم اور گھٹیا تیار ہوتا ہے اور ایسے مواقع پر نہیں پہنچ سکتا جہاں زیادہ قیمت مل سکے۔ یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ نفع آوری ایک ایسی صفت ہے جو سرمایہ کی ذات میں ودیعت کر دی گئی ہے۔ لہٰذا مجرد اس کا استعمال ہی سود کا استحقاق پیدا کر دیتا ہے۔

لیکن اوّل تو یہ دعویٰ ہی بداہتہً غلط ہے کہ سرمایہ میں ’’نفع آوری‘‘ نام کی کوئی ذاتی صفت پائی جاتی ہے۔ یہ صفت تو اس میں صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ آدمی اے سے کر کسی مُثمر کام میں لگائے۔ صرف اسی صورت میں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ روپیہ لینے والا چونکہ اس سے ایک نافع کام لے رہا ہے اس لیے اسے نفع میں سے حصہ دینا چاہیے۔ مگر جو شخص بیماری میں علاج پر صرف کرنے کے لیے، یا کسی میت کی تجہیز و تکفین کے لیے روپیہ قرض لے رہا ہے اُس کے پاس یہ سرمایہ آخر کون سی معاشی قدر پیدا کرتا ہے جس میں حصہ بٹانے کا حق دائن کو پہنچتا ہو؟۔

پھر جو سرمایہ نفع آور کاموں میں لگایا جاتا ہے وہ بھی لازماً زیادہ قیمت ہی پیدا نہیں کرتا کہ یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ نفع بخشی اس کی ذاتی صفت ہے۔ بسا اوقات کسی کام میں زیادہ سرمایہ لگا دینے سے نفع بڑھنے کے بجائے گھٹ جاتا ہے یہاں تک کہ اُلٹے نقصان کی نوبت آ جاتی ہے۔ آج کل تجارتی دنیا پر تھوڑی تھوڑی مدت بعد جو بحرانی دورے (Crisis) پڑتے رہتے ہیں ان کی وجہ یہی تو ہے کہ جب سرمایہ دار کاروبار میں بے تحاشا سرمایہ لگاتے چلے جاتے ہیں اور پیداوار بڑھنی شروع ہوتی ہے تو قیمتیں گرنے لگتی ہیں اور افزونی مال کے ساتھ ارزانی قدر رفتہ رفتہ اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ سرمایہ لگانے سے کسی نفع کی توقع باقی نہیں رہتی۔

مزید برآں سرمایہ میں نفع آوری کی اگر کوئی صفت ہے بھی تو اس کا قوت سے فعل میں آنا بہت سی دوسری چیزوں پر منحصر ہے۔ مثلاً اس کے استعمال کرنے والوں کی محنت، قابلیت، ذہانت اور تجربہ کاری دورانِ استعمال میں معاشی، تمدنی اور سیاسی حالات کی سازگاری، آفاتِ زمانہ سے محفوظیت، یہ اور ایسے ہی دوسرے امور نفع بخشی کے لازمی شرائط ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو بسا اوقات سرمایہ کی ساری نفع بخشی ختم ہو جاتی ہے، بلکہ الٹی نقصان میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مگر سودی کاروبار میں سرمایہ دینے والا نہ تو خود ان شرطوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے اور نہ یہی مانتا ہے کہ اگر ان میں سے کسی شرط کے مفقود ہو جانے سے اس کا سرمایہ نفع آور نہ ہو سکا تو وہ کوئی سود لینے کا حقدار نہ ہو گا۔ وہ تو اس بات کا مدعی ہے کہ اس کے سرمایہ کا استعمال بجائے خود ایک متعین شرح کے ساتھ سود کا استحقاق پیدا کرتا ہے خواہ فی الواقع کوئی ’’نفع آوری‘‘ اس سے ظہور میں آئی ہو یا نہ آئی ہو۔

بدرجۂ آخر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ سرمایہ کی ذات ہی میں نفع بخشی موجود ہے جس کی بناء پر سرمایہ دینے والا نفع میں سے حصہ پانے کا مستحق ہے، تب بھی آخر وہ کون سا حساب ہے جس سے تعیّن کے ساتھ یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ آج کل سرمایہ کی نفع بخشی لازماً اس قدر ہے لہٰذا جو لوگ سرمایہ لے کر استعمال کریں ان کو لازماً اس شرح سے سود ادا کرنا چاہیے؟ اور اگر یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ زمانہ حال کے لیے اس شرح کا تعین کسی حساب سے ممکن ہے تو ہم یہ سمجھنے سے تو بالکل ہی قاصر ہیں کہ جس سرمایہ دار نے ۱۹۴۹ء میں کسی کاروباری ادارے کو ۱۰ سال کے لیے، اور کسی دوسرے ادارے کو ۲۰ سال کے لیے رائج الوقت شرح سود پر قرض دیا تھا اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا آخر کیا ذریعہ تھا کہ آئندہ دس اور بیس سال کے دوران میں سرمایہ کی نفع بخشی ضرور آج ہی کے معیار پر قائم رہے گی؟ خصوصاً جب کہ ۵۹ء میں بازار کی شرح سود ۴۹ء سے بالکل مختلف ہو اور ۶۹ء میں اس سے بھی زیادہ مختلف ہو جائے۔ تب کس دلیل سے اس شخص کو حق بجانب ٹھیرایا جائے گا جس نے ایک ادارے سے دس سال کے لیے اور دوسرے سے بیس سال کے لیے ۴۹ء کی شرح کے مطابق سرمایہ کے متوقع منافع میں سے اپنا حصہ قطعی طور پر متعین کرا لیا تھا؟۔

توجیہہ چہارم

آخری توجیہہ میں ذرا زیادہ ذہانت صرف کی گئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

انسان فطرتاً حاضر کے فائدے، لطف، لذت اور آسودگی کو دُور دراز مستقبل کے فوائد و لذائذ پر ترجیح دیتا ہے۔ مستقبل جتنا دور ہو اسی قدر اس کے فوائد و لذائذ مشتبہ ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے آدمی کی نگاہ میں ان کی قیمت کم ہوتی جاتی ہے۔ اس ترجیح عاجلہ اور مرجوحیتِ آجلہ کے متعدد وجوہ ہیں۔ مثلا:

۱۔ مستقبل کا تاریکی میں ہونا اور زندگی کا غیر یقینی ہونا جس کی وجہ سے مستقبل کے فوائد مشتبہ بھی ہوتے ہیں اور ان کی کوئی تصویر بھی آدمی کی چشمِ تصوّر میں نہیں ہوتی۔ بخلاف اس کے آج جو نقد فائدہ حاصل ہو رہا ہے وہ یقینی بھی ہے اور اس کو آدمی بچشم سر بھی دیکھ رہا ہے۔

۲۔ جو شخص اس وقت حاجت مند ہے اُس کی حاجت کا اِس وقت پورا ہو جانا اس کے لیے اس سے بہت زیادہ قیمت رکھتا ہے کہ آئندہ کسی موقع پر اُس کو وہ چیز ملے جس کا ممکن ہے کہ وہ اُس وقت حاجتمند ہو اور ممکن ہے کہ نہ ہو۔

۳۔ جو مال اس وقت مل رہا ہے وہ بالفعل کارآمد اور قابلِ استعمال ہے، اس لحاظ سے وہ اُس مال پر فوقیت رکھتا ہے جو آئندہ کسی وقت حاصل ہو گا۔

ان وجوہ سے حاضر کا نقد فائدہ مستقبل کے مشتبہ فائدے پر ترجیح رکھتا ہے۔ لہٰذا آج جو شخص ایک رقم قرض لے رہا ہے اس کی قیمت لازماً اُس رقم سے زیادہ ہے جو وہ کل دائن کو ادا کرے گا اور سود وہ قدرِ زائد ہے جو ادائیگی کے وقت اصل کے ساتھ شامل ہو کر اس قیمت کو اُس رقم کے برابر کرتی ہے جو قرض دیتے وقت دائن نے اس کو دی تھی۔ مثال کے طور پر اس معاملہ کو یوں سمجھئے کہ ایک شخص ساہوکار کے پاس آتا ہے اور اس سے سو روپے قرض مانگتا ہے۔ ساہوکار اس سے یہ بات طے کرتا ہے کہ آج جو سو روپے وہ اس کو دے رہا ہے ان کے بدلے میں وہ ایک سال بعد اس سے ۱۰۳ روپے لے گا۔ اس معاملہ میں دراصل حاضر کے ۱۰۰ روپوں کا تبادلہ مستقبل کے ۱۰۳ روپوں سے ہو رہا ہے۔ تین اس فرق کے برابر ہیں جو حاضر کے مال اور مستقبل کے مال کی نفسیاتی (نہ کہ معاشی) قیمت کے درمیان میں پایا جاتا ہے۔ جب تک یہ تین روپے ایک سال بعد کے ۱۰۰ روپوں کے ساتھ شامل نہ ہوں گے ان کی قیمت ان سو روپے کے برابر نہ ہو گی جو قرض دیتے وقت دائن نے مدیون کو دیے تھے۔

یہ توجیہہ جس ہوشیاری کے ساتھ کی گئی ہے اس کی داد نہ دینا ظلم ہے مگر درحقیقت اس میں حاضر اور مستقبل کی نفسیاتی قیمت کا جو فرق بیان کیا گیا ہے وہ ایک مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

کیا فی الواقع انسانی فطرت حاضر کو مستقبل کے مقابلہ میں زیادہ اہم اور زیادہ قیمتی سمجھتی ہے؟ اگر یہ بات ہے تو کیا وجہ ہے کہ بیشتر لوگ اپنی ساری کمائی کو آج ہی خرچ کر ڈالنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ اس کے ایک حصے کو مستقبل کے لیے بچا رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں؟ شاید آپ کو ایک فیصدی بھی ایسے آدمی نہ ملیں گے جو فکر فردا سے بے نیاز ہوں اور آج کے لطف و لذت پر اپنا سارا مال اُڑا دینے کو ترجیح دیتے ہوں۔ کم از کم ۹۹ فیصدی انسانوں کا حال تو یہی ہے کہ وہ آج کی ضرورتوں کو روک کر کل کے لیے کچھ نہ کچھ سامان کر رکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مستقبل میں پیش آنے والی بہت سی متوقع اور ممکن ضرورتیں اور اندیشناک صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا خیالی نقشہ آدمی کی نگاہ میں اُن حالات کی بہ نسبت زیادہ بڑا اور اہم ہوتا ہے جن سے وہ اس وقت کسی نہ کسی طرح لشتم پشتم گزرے جا رہا ہے۔ پھر وہ ساری دَوڑ دھوپ اور تگ و دو جو ایک انسان زمانہ حال میں کرتا ہے اس سے مقصود آخر اس کے سوا کیا ہوتا ہے کہ اس کا مستقبل بہتر ہو؟ اپنی آج کی محنتوں کے سارے ثمرات آدمی اسی کوشش میں تو کھپاتا ہے کہ اس کے آنے والے ایام زندگی آج سے زیادہ اچھی طرح بسر ہوں۔ کوئی احمق سے احمق آدمی بھی بمشکل آپ کو ایسا مل سکے گا جو اس قیمت پر اپنے حاضر کو خوش آئند بنانا پسند کرتا ہو کہ اس کا مستقبل خراب ہو جائے یا کم از کم آج سے زیادہ بدتر ہو۔ جہالت و نادانی کی بناء پر آدمی ایسا کر جائے، یا کسی وقتی خواہش کے طوفان سے مغلوب ہو کر ایسا کر گزرے تو بات دوسری ہے، ورنہ سوچ سمجھ کر تو کوئی شخص بھی اس رویے کو صحیح و معقول قرار نہیں دیتا۔

پھر اگر تھوڑی دیر کے لیے اس دعوے کو جوں کا توں مان بھی لیا جائے کہ انسان حاضر کے اطمینان کی خاطر مستقبل کے نقصان کو گوارا کرنا درست سمجھتا ہے، تب بھی وہ استدلال ٹھیک نہیں بیٹھتا جس کی بناء اس دعوے پر رکھی گئی ہے۔ قرض لیتے وقت جو معاملہ دائن اور مدیون کے درمیان طے ہوا تھا اُس میں آپ کے قول کے مطابق حاضر کے ۱۰۰ روپوں کی قیمت ایک سال بعد کے ۱۰۳ روپے کے برابر تھی۔ لیکن اب جو ایک سال کے بعد مدیون اپنا قرض ادا کرنے گیا تو واقعی صورتِ معاملہ کیا ٹھیری؟ یہ کہ حاضر کے ۱۰۳ روپے ماضی کے سو روپوں کے برابر ہو گئے۔ اور اگر پہلے سال مدیون قرض ادا نہ کر سکا تو دوسرے سال کے خاتمے پر ماضی بعید کے سوروپوں کی قیمت حاضر کے ۱۰۶ روپوں کے برابر ہو گئی۔ کیا فی الواقع ماضی اور حال میں قدر و قیمت کا یہی تناسب ہے؟ اور کیا یہ اصول بھی صحیح ہے کہ جتنا جتنا ماضی پرانا ہوتا جائے اس کی قیمت بھی حال کے مقابلے میں بڑھتی چلی جائے؟ کیا پہلے گزری ہوئی ضرورتوں کی آسودگی آپ کے لیے اتنی ہی قابلِ قدر ہے کہ جو روپیہ آپ کو ایک مدتِ دراز پہلے ملا تھا اور جس کو خرچ کر کے آپ کبھی کا نسیاً منسیاً کر چکے ہیں، وہ آپ کے لیے زمانے کی ہر ساعت گزرنے پر حاضر کے روپے سے زیادہ قیمتی ہوتا چلا جائے، یہاں تک کہ اگر آپ کو سو روپے استعمال کیے ہوئے پچاس برس گزر چکے ہوں تو اب ان کی قیمت ڈھائی سو روپے کے برابر ہو جائے؟۔

شرح سود کی ’’معقولیت‘‘

یہ ہے ان دلائل کی کل کائنات جو سُود خواری کے وکیل اس کو عقل و انصاف کی رو سے ایک جائز و مناسب چیز ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ تنقید سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ معقولیت سے اس ناپاک چیز کو دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی وزنی دلیل سے بھی اس بات کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی جا سکتی کہ سود کیوں لیا اور دیا جائے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز اس قدر غیر معقول تھی، مغرب کے علماء اور مفکرین نے اس کو بالکل بدیہیات و مسلّمات میں شامل کر لیا اور نفس سود کی معقولیت کو گویا ایک طے شدہ صداقت اور مانی ہوئی حقیقت فرض کر کے ساری گفتگو اس امر پر مرکوز کر دی کہ شرحِ سود ’’معقول‘‘ ہونی چاہیے۔ دورِ جدید کے مغربی لٹریچر میں یہ بحث تو آپ کو کم ہی ملے گی کہ سود بجائے خود لینے اور دینے کے لائق چیز ہے بھی یا نہیں، البتہ جو کچھ بھی ردّو قدح آپ ان کے ہاں دیکھیں گے وہ زیادہ تر اس امر سے متعلق ہو گی کہ فلاں شرحِ سود ’’بے جا‘‘ اور ’’حد سے بڑھی ہوئی‘‘ ہے اس لیے قابلِ اعتراض ہے اور فلاں شرح ’’معقول‘‘ ہے اس لیے قابلِ قبول ہے۔

مگر کیا فی الواقع کوئی شرحِ سود معقول بھی ہے؟ تھوڑی دیر کے لیے ہم اس سوال کو نظر انداز کیے دیتے ہیں کہ جس چیز کا بجائے خود معقول ہونا ثابت نہیں کیا جا سکتا اُس کی شرح کے معقول یا نا معقول ہونے کی بحث پیدا ہی کہاں ہوتی ہے۔ اس سوال سے قطع نظر کر کے ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کون سی شرح سود ہے جس کو فطری اور معقول کہا جاتا ہے؟ اور ایک شرح کے لیے بے جا یا بجا ہونے کا آخر معیار کیا ہے؟ اور کیا درحقیقت دنیا کے سودی کاروبار میں شرح سود کا تعین کسی عقلی (Rational) بنیاد پر ہو رہا ہے؟۔

اس سوال کی جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو اولین حقیقت جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’معقول شرح سود‘‘ نامی کوئی چیز دنیا میں کبھی نہیں پائی گئی ہے۔ مختلف شرحوں کو مختلف زمانوں میں معقول ٹھیرایا گیا ہے اور بعد میں وہی شرحیں نامعقول قرار دے دی گئی ہیں۔ بلکہ ایک ہی زمانہ میں ایک جگہ معقول شرح کچھ ہے اور دوسری جگہ کچھ اور۔۔۔ قدیم ہندو دور میں کوتلیہ (Kautilya) کی تصریح کے مطابق ۱۵ سے ۶۰ فیصدی سالانہ تک شرح سود بالکل معقول اور جائز سمجھی جاتی تھی اور اگر خطرہ زیادہ ہو تو اس سے بھی زیادہ شرح ہو سکتی تھی۔ اٹھارویں صدی کے وسط آخر اور انیسویں صدی کے وسطِ اول میں ہندوستانی ریاستوں کے جو مالی معاملات ایک طرف دیسی ساہوکاروں سے اور دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت سے ہوتے تھے ان میں بالعموم ۴۸فیصدی سالانہ شرح رائج تھی۔ ۱۸۔۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم کے زمانے میں حکومتِ ہند نے ساڑھے ۶ فیصدی سالانہ سود پر جنگی قرضے حاصل کیے۔ ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۰ء کے درمیان کوآپریٹو سوسائٹیوں میں عام شرح سود ۱۲ سے ۱۵ فیصدی تک رہی۔ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے دَور میں ملک کی عدالتیں ۹فیصدی سالانہ کے قریب شرح کو معقول قرار دیتی رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے لگ بھگ زمانے میں ریزرو بنک آف انڈیا کا ڈسکونٹ ریٹ ۳ فیصدی سالانہ مقرر ہوا اور یہی شرح دورانِ جنگ میں بھی قائم رہی، بلکہ پونے تین فیصدی پر بھی حکومت ہند کو قرضے ملتے رہے۔

یہ تو ہے خود ہمارے اپنے برعظیم کا حال۔ اُدھر یورپ کو دیکھیے تو وہاں بھی آپ کو کچھ ایسا ہی نقشہ نظر آئے گا۔ سولہویں صدی کے وسط میں انگلستان میں ۱۰ فیصدی شرح بالکل معقول قرار دی گئی تھی۔ ۱۹۲۰ء کے قریب زمانے میں یورپ کے بعض سینٹرل بنک آٹھ نو فیصدی شرح لگاتے تھے اور خود مجلس اقوام نے یورپ کی ریاستوں کو اپنی وساطت سے جو قرضے اُس دور میں دلوائے تھے ان کی شرح بھی اسی کے لگ بھگ تھی۔ مگر آج یورپ اور امریکا میں کسی کے سامنے اس شرح کا نام لیجیے تو وہ چیخ اٹھے گا کہ یہ شرح سود نہیں بلکہ لوٹ ہے۔ اب جدھر دیکھیے ڈھائی اور تین فیصدی شرح کا چرچا ہے۔ ۴ فیصدی انتہائی شرح ہے اور بعض حالات میں ایک اور ۲/۱ اور ۴/۱ فیصدی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف غریب عوام کو سودی قرض دینے والے مہاجنوں کے لیے انگلستان میں ۱۹۲۷ء کے منی لینڈرس ایکٹ کی رَو سے جو شرح جائز رکھی گئی ہے وہ ۴۸ فیصدی سالانہ ہے اور امریکا کی عدالتیں سود خوار مہاجنوں کو جس شرح سود کے مطابق سود دلوا رہی ہیں وہ ۳۰ سے شروع ہو کر ۶۰ فیصدی سالانہ تک پہنچ جاتی ہے۔ بتایئے ان میں سے کس کا نام فطری اور معقول شرح سود ہے؟۔

اب ذرا آگے بڑھ کر اس مسئلے کا جائزہ لیجیے کہ کیا فی الحقیقت کوئی شرح سود فطری اور معقول ہو بھی سکتی ہے؟ اس سوال پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کی عقل خود بتا دے گی کہ شرح سود اگر معقول طور پر متعین ہو سکتی تھی تو صرف اُس صورت میں جب کہ اُس فائدے کی قیمت مشخص ہوتی (یا ہو سکتی) جو ایک شخص کسی قرض لی ہوئی رقم سے حاصل کرتا ہے۔ مثلاً اگر یہ بات متعین ہو جاتی کہ ایک سال تک سو روپے کا استعمال ۲۵ روپے کے برابر فائدہ دیتا ہے تو البتہ یہ طے کیا جا سکتا تھا کہ اس فائدے میں سے ۵ یا ۲/۱ یا ۴/۱۱ روپیہ اس شخص کا فطری اور معقول حصہ ہے جس کی رقم دورانِ سال میں استعمال کی گئی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس طرح سے استعمال سرمایہ کا فائدہ نہ تو مشخص کیا گیا ہے نہ کیا جا سکتا ہے اور نہ بازاری شرح سود کے تعین میں کبھی اس امر کا لحاظ کیا جاتا ہے کہ روپیہ قرض لینے والے کو اس سے کتنا فائدہ ہو گا بلکہ کوئی فائدہ ہو گا بھی یا نہیں۔ عملاً جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مہاجنی کاروبار میں تو قرض کی قیمت قرض مانگنے والے کی مجبوری کے لحاظ سے مشخص ہوتی ہے اور تجارتی سود خواری کی منڈی میں شرح سود کا اُتار چڑھائو کچھ دوسری بنیادوں پر ہوتا رہتا ہے جن کو عقل اور انصاف سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔

شرح سُود کے وجوہ

مہاجنی کاروبار میں ایک مہاجن بالعموم یہ دیکھتا ہے کہ جو شخص اس سے قرض مانگنے آیا ہے وہ کس حد تک غریب ہے، کتنا مجبور ہے اور قرض نہ ملنے کی صورت میں کس قدر زیادہ مبتلائے اذیت ہو گا۔ انہی چیزوں کے لحاظ سے وہ طے کرتا ہے کہ مجھے اس سے کتنا سود مانگنا چاہیے۔ اگر وہ کم غریب ہے، کم رقم مانگ رہا ہے اور بہت زیادہ پریشان نہیں ہے تو شرح سود کم ہو گی۔ اس کے برعکس وہ جتنا زیادہ خستہ حال اور جس قدر زیادہ سخت حاجت مند ہو گا اتنی ہی شرح بڑھتی چلی جائے گی، حتیٰ کہ اگر کسی فاقہ کش آدمی کا بچہ بیماری کی حالت میں دَم توڑ رہا ہو تو چار پانچ سو فیصدی شرح سود بھی اس کے معاملہ میں کچھ ’’بے جا‘‘ نہیں ہے۔ اس طرح کی صورتِ حال میں ’’فطری‘‘ شرح سود قریب قریب اُسی معیار کے لحاظ سے مشخص ہوتی ہے جس معیار کے لحاظ سے ۱۹۴۷ء کے ہنگامہ قیامت میں امرتسر کے اسٹیشن پر ایک سکھ نے ایک مسلمان سے پانی کے ایک گلاس کی ’’فطری‘‘ قیمت ۳۰۰ روپے وصول کی تھی کیونکہ اس کا بچہ پیاس سے مر رہا تھا اور پناہ گزینوں کی ٹرین سے کوئی مسلمان نیچے اتر کر خود پانی نہیں لے سکتا تھا۔

رہا دوسری قسم کا بازارِ مالیات، تو اس میں شرحِ سود کا تعین اور اس کا اُتار چڑھائو جن بنیادوں پر ہوتا ہے ان کے بارے میں ماہرین معاشیات کے دو مسلک ہیں:

ایک گروہ کہتا ہے کہ طلب اور رسد کا قانون اس کی بنیاد ہے جب رقم لگانے کے خواہش مند کم ہوتے ہیں اور قرض دینے کے قابل رقمیں زیادہ ہو جاتی ہیں تو سود کی شرح گرنے لگتی ہے یہاں تک کہ جب وہ بہت زیادہ گر جاتی ہے تو لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھ کر کاروبار میں لگانے کے لیے روپیہ قرض لینے پر بکثرت آمادہ ہونے لگتے ہیں۔ پھر جب روپے کی مانگ بڑھنی شروع ہوتی ہے اور قابل قرض رقمیں کم ہونے لگتی ہیں تو شرح سود چڑھنی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ قرض کی مانگ رُک جاتی ہے۔

غور کیجیے! اس کے معنی کیا ہیں۔ سرمایہ دار یہ نہیں کرتا کہ سیدھے اور معقول طریقہ سے کاروباری آدمی کے ساتھ شرکت کا معاملہ طے کرے اور انصاف کے ساتھ اس کے واقعی منافع میں اپنا حصہ لگائے۔ اس کے بجائے وہ ایک اندازہ کرتا ہے کہ کاروبار میں اس شخص کو کم از کم اتنا فائدہ ہو گا لہٰذا جو رقم میں اسے دے رہا ہوں اس پر مجھے اتنا سود ملنا چاہیے۔ دوسری طرف کاروباری آدمی بھی اندازہ کرتا ہے کہ جو روپیہ میں اس سے لے رہا ہوں وہ مجھے زیادہ سے زیادہ اتنا نفع دے سکتا ہے لہٰذا سود اس سے زیادہ نہ ہونا چاہیے۔ دونوں قیاس (Speculation) سے کام لیتے ہیں۔ سرمایہ دار ہمیشہ کاروبار کے منافع کا مبالغہ آمیز تخمینہ کرتا ہے اور کاروباری آدمی نفع کی امیدوں کے ساتھ نقصان کے اندیشوں کو بھی سامنے رکھتا ہے۔ اس بناء پر دونوں کے درمیان تعاون کے بجائے ایک دائمی کش مکش برپا رہتی ہے۔ جب کاروباری آدمی نفع کی امید پر سرمایہ لگانا چاہتا ہے تو سرمایہ دار اپنے سرمایہ کی قیمت بڑھانی شروع کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اتنی بڑھا جاتا ہے کہ اس قدر شرحِ سود پر روپیہ لے کر کام میں لگانا کسی طرح نفع بخش نہیں رہتا۔ اس طرح آخر کار روپے کا کام میں لگنا بند ہو جاتا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار یکایک رُک جاتی ہے۔ پھر جب کساد بازاری کا سخت دورہ پوری کاروباری دنیا پر پڑ جاتا ہے اور سرمایہ دار دیکھتا ہے کہ اس کی اپنی تباہی قریب آ لگی ہے تو وہ شرحِ سود کو اس حد تک گرا دیتا ہے کہ کاروباری آدمیوں کو اس شرح پر روپیہ لے کر لگانے میں نفع کی امید ہو جاتی ہے اور صنعت و تجارت کے بازار میں پھر سرمایہ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر معقول شرائط پر سرمائے اور کاروبار کے درمیان حصہ دارانہ تعاون ہوتا تو ایک ہموار طریقے سے دنیا کی معیشت کا نظام چل سکتا تھا۔ لیکن جب قانون نے سرمایہ دار کے لیے سود پر روپیہ چلانے کا راستہ کھول دیا تو سرمائے اور کاروبار کے باہمی تعلقات میں سٹہ بازی اور جواری بن کی روح داخل ہو گئی اور شرحِ سود کی کمی و بیشی ایسے قمار بازانہ طریقوں پر ہونے لگی جن کی بدولت پوری دنیا کی معاشی زندگی ایک دائمی بحران میں مبتلا رہتی ہے۔

دوسرا گروہ شرح سود کی توجیہہ اس طرح کرتا ہے کہ جب سرمایہ دار روپے کو خود اپنے لیے قابلِ استعمال رکھنا زیادہ پسند کرتا ہے تو وہ سُود کی شرح بڑھا دیتا ہے، اور جب اس کی یہ خواہش کم ہو جاتی ہے تو سود کی شرح بھی گھٹ جاتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ سرمایہ دار نقد روپیہ اپنے پاس رکھنے کو کیوں ترجیح دیتا ہے؟ تو اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔کچھ نہ کچھ روپیہ اپنی ذاتی یا کاروباری ضرورتوں کے لیے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ناگہانی حالات اور غیر متوقع ضروریات کے لیے بھی محفوظ رکھنا پڑتا ہے، مثلاً کسی ذاتی معاملہ میں کوئی غیر معمولی خرچ یا کسی اچھے سودے کا موقع یکایک سامنے آجانا۔ ان دو وجوہ کے علاوہ تیسری وجہ اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار یہ پسند کرتا ہے کہ مستقبل میں کسی وقت قیمتیں گرنے یا شرح سود چڑھنے کی صورت میں فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے پاس نقد روپیہ کافی موجود رہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِن وجوہ کی بناء پر روپے کواپنے لیے قابل استعمال رکھنے کی جو خواہش سرمایہ دار کے دل میں پیدا ہوتی ہے کیا وہ گھٹتی بڑھتی ہے کہ اس کا اثر شرح سود کے اتار چڑھائو کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہاں مختلف شخصی، اجتماعی، سیاسی اور معاشی اسباب سے کبھی یہ خواہش بڑھ جاتی ہے اس لیے سرمایہ دار شرح سود بڑھا دیتا ہے اور کاروبار کی طرف سرمایہ آنا کم ہو جاتا ہے اور کبھی اس خواہش میں کمی آ جاتی ہے اس لیے سرمایہ دار شرح سود گھٹا دیتا ہے اور اس کے گھٹنے کی وجہ سے لوگ تجارت و صنعت میں لگانے کے لیے زیادہ سرمایہ قرض لینے لگتے ہیں۔

اس خوشنما توجیہہ کے پیچھے ذرا جھانک کر دیکھیے کہ کیا چیز چھپی ہوئی ہے۔ جہاں تک خانگی ضروریات یا ذاتی کاروبار کی ضروریات کا تعلق ہے اُن کی بناء پر معمولی اور غیر معمولی سب طرح کے حالات میں سرمایہ دار کی یہ خواہش کہ وہ سرمایہ کو اپنے لیے قابلِ استعمال رکھے، بمشکل اس کے پانچ فیصدی سرمائے پر اثر انداز ہوتی ہے اس لیے پہلی دونوں وجہوں کو خواہ مخواہ اہمیت دینا صحیح نہیں ہے۔ اپنا ۹۵ فیصد سرمایہ جس بنیاد پر وہ کبھی روکتا ہے اور کبھی ٭٭ قرض کی طرف بہاتا ہے، وہ دراصل تیسری وجہ ہے اوراس کا تجزیہ کیجیے تو اس کے اندر سے اصل حقیقت یہ برآمد ہو گی کہ سرمایہ دار کمال درجہ خود غرضانہ نیت کے ساتھ دنیا کے اور خود اپنے ملک اور قوم کے حالات کو دیکھتا رہتا ہے۔ ان حالات میں کبھی وہ کچھ مخصوص آثار دیکھتا ہے اور ان کی بناء پر چاہتا ہے کہ اس کے پاس وہ ہتھیار ہر وقت موجود رہے جس کے ذریعہ سے وہ سوسائٹی کی مشکلات، آفات اور مصائب کا ناجائز فائدہ اٹھا سکے اور اس کی پریشانیوں میں اضافہ کر کے اپنی خوشحالی بڑھا سکے۔ اس لیے وہ سٹہ بازی کی خاطر سرمایہ کو اپنے لیے روک لیتا ہے، شرح سود بڑھا دیتا ہے، تجارت و صنعت کی طرف سرمائے کا بہائو یک لخت بند کر دیتا ہے اور سوسائٹی پر اُس بلائے عظیم کا دروازہ کھول دیتا ہے جس کا نام ’’کساد بازاری‘‘ (Depression) ہے۔پھر جب وہ دیکھتا ہے کہ اس راستہ سے جو کچھ حرام خوری وہ کر سکتا تھا کر چکا، آگے مزید فائدے کا کوئی امکان باقی نہیں ہے۔ بلکہ نقصان کی سرحد قریب آ لگی ہے، تو ’’سرمائے کو اپنے لیے قابلِ استعمال رکھنے کی خواہش‘‘ اُس کے نفسِ خبیث میں کم ہو جاتی ہے اور وہ کم شرحِ سود کا لالچ دے کر کاروباری لوگوں کو صلائے عام دینے لگتا ہے کہ آئو میرے پاس بہت سا روپیہ تمہارے لیے قابلِ استعمال پڑا ہے۔

شرح سود کی بس یہی دو توجیہات موجودہ زمانے کے ماہرین معاشیات نے کی ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں ہی صحیح ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان میں سے جو وجہ بھی ہو اس سے آخر ایک ’’معقول‘‘ اور ’’فطری‘‘ شرح کس طرح متعین ہوتی یا ہو سکتی ہے؟ یا تو ہمیں عقل اور معقولیت اور فطرت کے مفہومات بدلنے پڑیں گے، یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ سود خود جس قدر نامعقول چیز ہے اس کی شرح بھی اتنے ہی نامعقول اسباب سے متعین ہوتی اور گھٹتی بڑھتی ہے۔

سُود کا ’’معاشی فائدہ‘‘ اور اُس کی ’’ضرورت‘‘

اس کے بعد سود کے وکلاء یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ سود ایک معاشی ضرورت ہے اور کچھ فوائد ایسے ہیں جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس دعوے کی تائید میں جو دلائل وہ دیتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:

(۱) انسانی معیشت کا سارا کاروبار سرمائے کے اجتماع پر منحصر ہے اور سرمائے کا جمع ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ لوگ اپنی ضروریات اور خواہشات پر پابندی عائد کریں اور اپنی ساری کی ساری آمدنیوں کو اپنی ذات پر خرچ نہ کر ڈالیں بلکہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کرتے رہا کریں۔ یہی ایک صورت ہے سرمایہ اکٹھا ہونے کی۔ لیکن آخر ایک آدمی کیوں اپنی ضروریات کو روکنے اور کافیت شعاری کرنے پر آمادہ ہو اگر اُسے اس ضبطِ نفس اور اس قربانی کا کوئی اجر نہ ملے؟ سود ہی تو وہ اجر ہے جس کی امید لوگوں کو روپیہ بچانے پر آمادہ کرتی ہے۔ تم اسے حرام کر دو گے تو سرے سے فاضل آمدنیوں کو محفوظ کرنے کا سلسلہ ہی بند ہو جائے گا جو سرمایہ کی بہم رسانی کا اصل ذریعہ ہے۔

(۲) معاشی کاروبار کی طرف سرمائے کے بہائو کی آسان ترین صورت یہ ہے کہ لوگوں کے لیے اپنی جمع شدہ دولت کو سود پر چلانے کا دروازہ کھلا رہے۔ اس طرح سود ہی کا لالچ ان سے روپیہ جمع کراتا ہے پھر سود ہی کا لالچ ان کو اس بات پر بھی آمادہ کرتا رہتا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی رقموں کو بیکار نہ ڈال رکھیں بلکہ کاروباری لوگوں کے حوالے کر دیں اور ایک مقرر شرح کے مطابق سود وصول کرتے رہیں۔ اس دروازے کو بند کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف روپیہ جمع کرنے کا ایک اہم ترین محرک غائب ہو جائے بلکہ جو تھوڑا بہت سرمایہ جمع ہو وہ بھی کاروبار میں لگنے کے لیے حاصل نہ ہو سکے۔

(۳) سود صرف یہی نہیں کرتا کہ سرمایہ جمع کراتا اور اسے کاروبار کی طرف کھینچ کر لاتا ہے بلکہ وہی اس کے غیر مفید استعمال کو روکتا بھی ہے اور شرح سود وہ چیز ہے جو بہترین طریقہ سے آپ ہی آپ اس امر کا انتظام کرتی رہتی ہے کہ سرمایہ کاروبار کی مختلف ممکن تجویزوں میں سے ان تجویزوں کی طرف جائے جو اُن میں سب سے زیادہ بار آور ہوں۔ اس کے سوا کوئی تدبیر ایسی سمجھ میں نہیں آتی جو مختلف عملی تجویزوں میں سے نافع کو غیر نافع سے اور زیادہ نافع کو کم نافع سے ممیز کرلے اور انفع کی طرف سرمائے کا رُخ پھیرتی رہے۔ تم سود کو اُڑا دو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اول تو لوگ بڑی بے پروائی سے سرمایہ استعمال کرنے لگیں گے اور پھر بلا لحاظ نفع و نقصان ہر طرح کے اُلٹے سیدھے کاموں میں اسے لگانا شروع کر دیں گے۔

(۴) قرض وہ چیز ہے جو انسانی زندگی کی ناگزیر ضروریات میں سے ہے۔ افراد کو بھی اپنے ذاتی معاملات میں اس کی ضرورت پیش آتی ہے کاروباری لوگوں کو بھی آئے دن اس کی حاجت رہتی ہے اور حکومتوں کا کام بھی اس کے بغیر نہیں چل سکتا، اس کثرت سے اتنے بڑے پیمانے پر قرض کی بہم رسانی آخر نری خیرات کے بَل پر کہاں تک ہو سکتی ہے؟ اگر تم صاحبِ سرمایہ لوگوں کو سود کا لالچ نہ دو گے اور اس امر کا اطمینان بہم نہ پہنچائو گے کہ ان کے راس المال کے ساتھ ان کا سود بھی ان کو ملتا رہے گا تو وہ بمشکل ہی قرض دینے پر آمادہ ہوں گے اور اس طرح قرضوں کی بہم رسانی رُک جانے کا نہایت بُرا اثر پوری معاشی زندگی پر مترتب ہو گا۔ ایک غریب آدمی کو اپنے بُرے وقت پر مہاجن سے قرض مل تو جاتا ہے۔ سود کا لالچ نہ ہو تو اس کا مردہ بے کفن ہی پڑا رہ جائے اور کوئی اس کی طرف مدد کا ہاتھ نہ بڑھائے۔ ایک تاجر کو تنگ مواقع پر سودی قرض فوراً مل جاتا ے اور اس کا کام چلتا رہتا ہے۔ یہ دروازہ بند ہو جائے تو نہ معلوم کتنی مرتبہ اس کا دیوالہ نکلنے کی نوبت آ جائے۔ ایسا ہی معاملہ حکومتوں کا بھی ہے کہ اُن کی ضرورتیں سودی قرض ہی سے پوری ہوتی رہتی ہیں ورنہ کروڑوں روپے فراہم کرنے والے سخی داتا آخر انہیں روز روز کہاں مل سکتے ہیں؟۔

کیا سُود فی الواقع ضروری اور مفید ہے؟

آیئے اب ہم ان میں سے ایک ایک ’’فائدے‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آیا فی الحقیقت وہ کوئی فائدہ اور ضرورت ہے بھی یا یہ سب کچھ محض ایک شیطانی وسوسہ ہے۔

اوّلین غلط فہمی یہ ہے کہ معاشی زندگی کے لیے افراد کی کفایت شعاری اور زر اندوزی کو ایک ضروری اور مفید چیز سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ درحقیقت ساری معاشی ترقی و خوشحالی منحصر ہے اس پر کہ جماعت بحیثیت مجموعی جتنا کچھ سامانِ زیست پیدا کرتی جائے وہ جلدی جلدی فروخت ہوتا چلا جائے تاکہ پیداوار اور اس کی کھپت کا چکر توازن کے ساتھ اور تیز رفتاری کے ساتھ چلتا رہے۔ یہ بات صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب کہ لوگ بالعموم اس امر کے عادی ہوں کہ معاشی سعی و عمل کے دوران میں جتنی کچھ دولت ان کے حصہ میں آئے اُسے صرف کرتے رہیں اور اس قدر فراخ دل ہوں کہ اگر ان کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ دولت آگئی ہو تو اسے جماعت کے کم نصیب افراد کی طرف منتقل کر دیا کریں تاکہ وہ بھی بفراغت اپنے لیے ضروریات زندگی خرید سکیں۔ مگر تم اس کے برعکس لوگوں کو یہ سکھاتے ہو کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت پہنچی ہو وہ بھی کنجوسی برت کر (جسے تم ضبطِ نفس اور زہد اور قربانی وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتے ہو) اپنی مناسب ضروریات کا ایک اچھا خاصا حصہ پورا کرنے سے باز رہے اور اس طرح ہر شخص زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی کوشش کرے۔ تمہارے نزدیک اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ سرمایہ اکٹھا ہو کر صنعت و تجارت کی ترقی کے لیے بہم پہنچ سکے گا۔ لیکن درحقیقت اس کا نقصان یہ ہو گا کہ جو مال اس وقت بازار میں موجود ہے اس کا ایک بڑا حصہ یوں ہی پڑا رہ جائے گا۔ کیونکہ جن لوگوں کے اندر قوتِ خرید پہلے ہی کم تھی وہ تو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا مال خرید نہ سکے اور جو بقدر ضرورت خرید سکتے تھے انہوں نے استطاعت کے باوجود پیداوار کا اچھا خاصا حصہ نہ خریدا اور جن کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ قوتِ خریداری پہنچ گئی تھی انہوں نے اُسے دوسروں کی طرف منتقل کرنے کے بجائے اپنے پاس روک کر رکھ لیا۔ اب اگر ہر معاشی چکر میں یہی ہوتا رہے کہ بقدر ضرورت اور زائد از ضرورت قوت خرید پانے والے لوگ اپنی اس قوت کے بڑے حصے کو نہ تو خود پیداوار کے خریدنے میں استعمال کریں نہ کم قوتِ خرید رکھنے والوں کو دیں، بلکہ اسے روکتے اور جمع کرتے چلے جائیں تو اس کا حاصل یہ ہو گا کہ ہر چکر میں جماعت کی معاشی پیداوار کا معتدبہ حصہ فروخت سے رُکتا چلا جائے گا۔ مال کی کھپت کم ہونے سے روزگار میں کمی واقع ہو گی۔ روزگار کی کمی آمدنیوں کی کمی پر منتج ہو گی اور آمدنیوں کی کمی سے پھر اموالِ تجارت کی کھپت میں مزید کمی رونما ہوتی چلی جائے گی۔ اس طرح چند افراد کی زر اندوزی بہت سے افراد کی بدحالی کا سبب بنے گی اور آخر کار یہ چیز خود اُن زر اندوز افراد کے لیے بھی وبالِ جان بن جائے گی کیونکہ جس دولت کو وہ خریداری میں استعمال کرنے کے بجائے سمیٹ سمیٹ کر مزید پیداوار میں استعمال کریں گے آخر اس کے ذریعے سے تیار کی ہوئی پیداوار کھپے گی کہاں؟

اس حقیقت پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اصل معاشی ضرورت تو اُن اسباب اور محرکات کو دُور کرنا ہے جن کی بناء پر افراد اپنی آمدنیوں کو خرچ کرنے کے بجائے روک رکھنے اور جمع کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ساری جماعت کی معاشی فلاح یہ چاہتی ہے کہ ایک طرف اجتماعی طور پرایسے انتظامات کر دیئے جائیں جن کی بدولت ہر شخص کو اپنے بُرے وقت پر مالی مدد مل جایا کرے تاکہ لوگوں کو اپنی آمدنیاں جمع کرنے کی حاجت ہی نہ محسوس ہو اور دوسری طرف جمع شدہ دولت پر زکوٰۃ عائد کی جائے تاکہ لوگوں کے اندر جمع کرنے کا میلان کم ہو اور اس کے باوجود جو دولت رُک جائے اس کا ایک حصہ بہرحال ان لوگوں تک پہنچتا رہے جنہوں نے گردشِ دولت میں سے کم حصہ پایا ہے۔ لیکن تم اس کے برعکس سود کا لالچ دے دے کر لوگوں کے طبعی بخل کو اور زیادہ اکساتے ہو، اور جو بخیل نہیں ہیں ان کو بھی یہ سکھاتے ہو کہ وہ خرچ کرنے کے بجائے مال جمع کریں۔

پھر اس غلط طریقے سے اجتماعی مفاد کے خلاف جو سرمایہ اکٹھا ہوتا ہے اس کو تم پیدائشِ دولت کے کاروبار کی طرف لاتے بھی ہو تو سود کے راستے سے لاتے ہو۔ یہ اجتماعی مفاد پر تمہارا دوسرا ظلم ہے۔ اگر یہ اکٹھی کی ہوئی دولت اس شرط پر کاروبار میں لگتی کہ جتنا کچھ منافع کاروبار میں ہو گا اس میں سے سرمایہ دار کو تناسب کے مطابق حصہ مل جائے گا تب بھی چنداں مضائقہ نہ تھا۔ مگر تم اس شرط پر بازار مالیات میں لاتے ہو کہ کاروبار میں چاہے منافع ہو یا نہ ہو اور چاہے کم منافع ہو یا زیادہ؟ بہرحال سرمایہ دار اس قدر فیصدی منافع ضرور پائے گا۔ اس طرح تم نے اجتماعی معیشت کو دہرا نقصان پہنچایا۔ ایک نقصان وہ جو روپے کو خرچ نہ کرنے اور روک رکھنے سے پہنچا اور دوسرا یہ کہ جو روپیہ روکا گیا تھا وہ اجتماعی معیشت کی طرف پلٹا بھی تو حصہ داری کے اصول پر کاروبارمیں شریک نہیں ہوا بلکہ قرض بن کر پورے معاشرے کی صنعت و تجارت پر لد گیا اور تمہارے قانون نے اس کو یقینی منافع کی ضمانت دے دی۔ اب تمہارے اس غلط نظام کی وجہ سے صورتِ حال یہ ہو گئی کہ معاشرے کے بکثرت افراد اس قوتِ خریدار کو جو انہیں حاصل ہوتی ہے اجتماعی پیداوار کی خریداری میں صرف کرنے کے بجائے روک روک کر ایک سود طلب قرضے کی شکل میں معاشرے کے سر پر لادتے چلے جاتے ہیں اور معاشرہ اس روز افزوں پیچیدگی میں مبتلا ہو گیا ہے کہ آخر وہ اس ہر لحظہ بڑھنے والے قرض و سود کو کس طرح ادا کرے جب کہ اس سرمائے سے تیار کیے ہوئے مال کی کھپت بازار میں مشکل ہے اور مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ لاکھوں کروڑوں آدمی اُسے اس لیے نہیں خریدتے کہ ان کے پاس خریدنے کے لیے پیسہ نہیں اور ہزار ہا آدمی اس کو اس لیے نہیں خریدتے کہ وہ اپنی قوتِ خریداری کو مزید سود طلب قرض بنانے کے لیے روکتے چلے جارہے ہیں۔

تم اس سود کا یہ فائدہ بتاتے ہو کہ اُس کے دبائو کی وجہ سے کاروباری آدمی مجبور ہوتا ہے کہ سرمائے کے فضول استعمال سے بچے اور اس کو زیادہ سے زیادہ نفع بخش طریقے سے استعمال کرے۔ تم شرحِ سود کی یہ کرامت بیان کرتے ہو کہ وہ خاموشی کے ساتھ کاروبار کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہتی ہے اور یہ اسی کا فیضان ہے کہ سرمایہ اپنے بہائو کے لیے تمام ممکن راستوں میں سے اُس کاروبار کے راستے کو چھانٹ لیتا ہے جو سب سے زیادہ نافع ہوتا ہے۔ لیکن ذرا اپنی اس سخن سازی کے پردے کو ہٹا کر دیکھو کہ اس کے نیچے اصل حقیقت کیا چھپی ہوئی ہے۔ دراصل سود نے پہلی خدمت تو یہ انجام دی کہ ’’فائدے‘‘ اور ’’منفعت‘‘ کی تمام دوسری تفسیریں اس کے فیض سے متروک ہو گئیں اور ان الفاظ کا صرف ایک ہی مفہوم باقی رہ گیا، یعنی ’’مالی فائدہ‘‘ اور ’’مادی منفعت‘‘۔ اس طرح سرمائے کو بڑی یکسوئی حاصل ہو گئی پہلے وہ اُن راستوں کی طرف بھی چلا جایا کرتا تھا جن میں مالی فائدے کے سوا کسی اور قسم کا فائدہ ہوتا تھا مگر اب وہ سیدھا اُن راستوں کا رُخ کرتا ہے جدھر مالی فائدے کا یقین ہوتا ہے۔ پھر دوسری خدمت وہ اپنی شرح خاص کے ذریعے سے یہ انجام دیتا ہے کہ سرمائے کے مفید استعمال کا معیار سوسائٹی کا فائدہ نہیں بلکہ صرف سرمایہ دار کا فائدہ بن جاتا ہے۔ شرح سود یہ طے کر دیتی ہے کہ سرمایہ اُس کام میں صرف ہو گا جو مثلاً ۶ فیصدی سالانہ یا اس سے زیادہ منافع سرمایہ دار کو دے سکتا ہو۔ اس سے کم نفع دینے والا کوئی کام اس قابل نہیں ہے کہ اس پر مال صرف کیا جائے۔ اب فرض کیجیے کہ ایک اسکیم سرمایہ کے سامنے یہ آتی ہے کہ ایسے مکانات تعمیر کیے جائیں جو آرام دہ بھی ہوں اور جنہیں غریب لوگ کم کرایہ پر لے سکیں اور دوسری اسکیم یہ آتی ہے کہ ایک شاندار سنیما تعمیر کیا جائے۔ پہلی اسکیم ۶ فیصدی سے کم منافع کی اُمید دلاتی ہے اور دوسری اسکیم اس سے زیادہ نفع دیتی نظر آتی ہے۔ دوسرے حالات میں تو اس کا امکان تھا کہ سرمایہ ’’نادانی‘‘ کے ساتھ پہلی اسکیم کی طرف بہہ جاتا، یا کم از کم ان دونوں کے درمیان مترود ہو کر استخارہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتا۔ مگر یہ شرحِ سود کا فیضِ ہدایت ہے کہ وہ سرمایہ کو بلا تامل دوسری اسکیم کا راستہ دکھا دیتا ہے اور پہلی اسکیم کو اس طرح پیچھے پھینکتا ہے کہ سرمایہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس پر مزید کرامت شرحِ سود میں یہ ہے کہ وہ کاروباری آدمی کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے ہاتھ پائوں مار کر اپنے منافع کو اُس حد سے اوپر ہی اوپر رکھنے کی کوشش کرے جو سرمایہ دار نے کھینچ دی ہے۔ خواہ اس غرض کے لیے اس کو کیسے ہی غیر اخلاقی طریقے اختیار کرنے پڑیں۔ مثلاً اگر کسی شخص نے ایک فلم کمپنی قائم کی ہے اور جو سرمایہ اس میں لگا ہوا ہے اس کی شرح سود ۶ فی صدی سالانہ ہے تو اس کو لامحالہ وہ طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جن سے اس کے کاروبار کا منافع ہر حال میں اس شرح سے زیادہ رہے۔ یہ بات اگر ایسے فلم تیار کرنے سے حاصل نہ ہو سکے جو اخلاقی حیثیت سے پاکیزہ اور علمی حیثیت سے مفید ہوں تو وہ مجبور ہو گا کہ عریاں اور فحش کھیل تیار کرے اور ایسے ایسے طریقوں سے ان کا اشتہار دے جن سے عوام کے جذبات بھڑکیں اور وہ شہوانیت کے طوفان میں بہہ کر اُس کے کھیل دیکھنے کے لیے جوق در جوق اُمنڈ آئیں۔

یہ ہے ان فوائد کی حقیقت جو تمہارے نزدیک سود سے حاصل ہوتے ہیں اور جن کے حصول کا کوئی ذریعہ سود کے سوا نہیں ہے۔ اب ذرا اُس ضرورت کا جائزہ بھی لے لیجیے جو آپ کے نزدیک سود کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ بلا شبہ قرض انسانی زندگی کی ضروریات میں سے ہے۔ اس کی ضرورت افراد کو اپنی شخصی حاجات میں بھی پیش آتی ہے، صنعت اور تجارت اور زراعت وغیرہ معاشی کاموں میں بھی ہر وقت اس کی مانگ رہتی ہے اور حکومت سمیت تمام اجتماعی ادارے بھی اس کے حاجت مند رہتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ سود کے بغیر قرض کی بہم رسانی غیر ممکن ہے۔ دراصل یہ صورتِ حال کہ افراد سے لے کر قوم تک کسی کو بھی ایک پیسہ بلا سود قرض نہیں ملتا، اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ آپ نے سود کو قانوناً جائز کر رکھا ہے۔ اس کو حرام کیجیے اور معیشت کے ساتھ اخلاق کا بھی وہ نظام اختیار کیجیے جو اسلام نے تجویز کیا ہے پھر آپ دیکھیں گے کہ شخصی حاجات اور کاروبار اور اجتماعی ضروریات، ہر چیز کے لیے قرض بلا سود ملنا شروع ہو جائے گا، بلکہ عطیے تک ملنے لگیں گے۔ اسلام عملاً اس کا ثبوت دے چکا ہے صدیوں مسلمان سوسائٹی سود کے بغیر بہترین طریقہ پر اپنی معیشت کا سارا کام چلاتی رہی ہے۔ آپ کے اس منحوس دورِ سود خواری سے پہلے کبھی مسلمان سوسائٹی کا یہ حال نہیں رہا ہے کہ کسی مسلمان کا جنازہ اس لیے بے کفن پڑا رہ گیا ہو کہ اس کے وارث کو کہیں سے بلا سود قرض نہیں ملا۔ یا مسلمانوں کی صنعت و تجارت اور زراعت اس لیے بیٹھ گئی ہو کہ کاروباری ضروریات کے مطابق قرضِ حَسَن بہم پہنچنا غیر ممکن ثابت ہوا یا مسلمان حکومتیں رفاہِ عام کے کاموں کے لیے اور جہاد کے لیے اس وجہ سے سرمایہ نہ پا سکی ہوں کہ ان کی قوم سود کے بغیر اپنی حکومت کو روپیہ دینے پر آمادہ نہ تھی۔ لہٰذا آپ کا یہ دعویٰ کہ قرضِ حسن ناقابل عمل ہے اور قرض و استقراض کی عمارت صرف سود ہی پر کھڑی ہو سکتی ہے کسی منطقی تردید کا محتاج نہیں ہے۔ ہم اپنے صدیوں کے عمل سے اسے غلط ثابت کر چکے ہیں۔

یہ بحث کہ آج اس زمانے کی معاشی ضروریات کے لیے قرض بلا سود کی بہم رسانی عملاً کس طرح ہو سکتی ہے ہمارے اس باب کے موضوع سے خارج ہے۔ اس پر ہم بعد کے ایک باب میں گفتگو کریں گے۔

ایجابی پہلو

پچھلے باب میں جو بحث ہم نے کی ہے اس سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ سود نہ تو کوئی معقول چیز ہے نہ وہ انصاف کا تقاضا ہے، نہ وہ کوئی معاشی ضرورت ہے اور نہ اس میں فی الحقیقت فائدے کا کوئی پہلو ہے۔ لیکن سود کی حرمت صرف اِن منفی اسباب ہی پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ قطعی طور پر ایک نقصان دہ چیز ہے اور بہت سے پہلوئوں سے بہت زیادہ نقصان دہ ہے۔

اس باب میں ہم ایک ایک کر کے اُن نقصانات کا تفصیلی جائزہ لیں گے تاکہ کسی معقول آدمی کو اس ناپاک چیز کی حرمت میں ذرّہ برابر بھی شبہ باقی نہ رہ جائے۔

سُود کے اخلاقی و روحانی نقصانات

سب سے پہلے اخلاق و روحانیت کے نقطۂ نظر سے دیکھیے۔ کیونکہ اخلاق اور روح ہی اصل جوہر انسانیت ہے اور اگر کوئی چیز ہمارے اس جوہر کو نقصان پہنچانے والی ہو تو بہرحال وہ قابلِ ترک ہے، خواہ کسی دوسرے پہلو سے اس میں کتنے ہی فوائد ہوں۔ اب اگر آپ سود کا نفسیاتی تجزیہ کریں گے تو آپ کو بیک نظر معلوم ہو جائے گا کہ روپیہ جمع کرنے کی خواہش سے لے کر سودی کاروبار کے مختلف مرحلوں تک پورا ذہنی عمل خود غرضی، بخل، تنگ دلی، سنگ دلی اور زر پرستی جیسی صفات کے زیر اثر جاری رہتا ہے اور جتنا جتنا آدمی اس کاروبار میں آگے بڑھتا جتا ہے یہی صفات اس کے اندر نشوونما پاتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس زکوٰۃ و صدقات کی ابتدائی نیت سے لے کر اس کے عملی ظہور تک پورا ذہنی عمل فیاضی، ایثار، ہمدردی، فراخ دلی، عالی ظرفی اور خیر اندیشی جیسی صفات کے زیر اثر واقع ہوتا ہے اور اس طریقِ کار پر مسلسل عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر نشوونما پاتی ہیں۔ کیا کوئی انسان دنیا میں ایسا ہے جس کا دل یہ شہادت نہ دیتا ہو کہ اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلا مجموعہ بدترین اور دوسرا مجموعہ بہترین ہے؟۔

تمدنی و اجتماعی نقصانات

اب تمدنی حیثیت سے دیکھیے! ایک ذرا سے غور و خوض سے یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں با آسانی آ سکتی ہے کہ جس معاشرے میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں کوئی اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے، ایک کی حاجت مندی دوسرے کے لیے نفع اندوزی کا موقع بن جائے اور مال دار طبقوں کا مفاد نادار طبقوں کے مفاد کی ضد ہو جائے، ایسا معاشرہ کبھی مستحکم نہیں ہو سکتا اس کے اجزاء ہمیشہ انتشار و پراگندگی ہی کی طرف مائل رہیں گے اور اگر دوسرے اسباب بھی اس صورتِ حال کے لیے مددگار بن جائیں تو ایسے معاشرے کے اجزاء کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پرمبنی ہو، جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں، جس میں ہر شخص دوسرے کی احتیاج کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے اور جس میں مالدار لوگ نادار لوگوں کے ساتھ ہمدردانہ اعانت، یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں، ایسے معاشرے میں آپس کی محبت اور خیر خواہی اور دلچسپی نشوونما پائے گی۔ اس کے اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ اور ایک دوسرے کے پشتیبان ہوں گے اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلے معاشرے کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہو گی۔

ایسا ہی حال بین الاقوامی تعلقات کا بھی ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ فیاضی و ہمدردی کا معاملہ کرے اور اس کی مصیبت کے وقت کھلے دل سے مدد کا ہاتھ بڑھائے ممکن نہیں ہے کہ دوسری طرف سے اس کا جواب محبت اور شکر گزاری اور مخلصانہ خیر خواہی کے سوا کسی اور صورت میں ملے۔ اس کے برعکس وہی قوم اگر اپنی ہمسایہ قوم کے ساتھ خود غرضی و تنگ دلی کا برتائو کرے اور اس کی مشکلات کا ناجائز فائدہ اٹھائے، تو ہو سکتا ہے کہ مال کی صورت میں وہ بہت کچھ نفع اس سے حاصل کر لے، لیکن یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ پھر اپنے اُس شائیلاک قسم کے ہمسایہ کے لیے اُس قوم کے دل میں کوئی اخلاص اور محبت اور خیر خواہی باقی رہ جائے۔ ابھی کچھ زیادہ مدت نہیں گزری ہے، پچھلی جنگ عظیم کے زمانہ کی بات ہے کہ انگلستان نے امریکا سے ایک بھاری قرض کا معاملہ طے کیا جو (Bretton Wood Agreement) کے نام سے مشہور ہے۔ انگلستان چاہتا تھا کہ اس کا خوشحال دوست جو اس لڑائی میں اس کا رفیق تھا، اُسے بلا سود قرض دے دے۔ لیکن امریکا سود چھوڑنے پر راضی نہ ہوا اور انگلستان اپنی مشکلات کی وجہ سے مجبور ہو گیا کہ سود دینا قبول کرے۔ اس کا جو اثر انگیزی قوم پر مرتب ہوا وہ ان تحریروں اور تقریروں سے معلوم ہو سکتا ہے جو اُس زمانے میں انگلستان کے مدبرین اور اخبار نویسوں کی زبان اور قلم سے نکلیں۔ مشہور ماہر معاشیات لارڈ کینز آنجہانی، جنہوں نے انگلستان کی طرف سے یہ معاملہ طے کیا تھا، جب اپنے مشن کو پورا کر کے پلٹے تو انہوں نے برطانوی دارالامراء میں اس پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں تمام عمر اس رنج کو نہ بھولوں گا جو مجھے اس بات سے ہوا کہ امریکا نے ہم کو بلا سود قرض دینا گوارا نہ کیا‘‘۔ مسٹر چرچل جیسے زبردست امریکا پسند شخص نے کہا کہ ’’یہ بنیے پن کا برتائو جو ہمارے ساتھ ہوا ہے، مجھے اس کی گہرائی میں بڑے خطرات نظر آتے ہیں، سچی بات یہ ہے کہ اس کا ہمارے باہمی تعلقات پر بہت ہی بُرا اثر پڑا ہے‘‘۔ اُس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر ڈالٹن نے پارلیمنٹ میں اس معاملہ کو منظوری کے لیے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بھاری بوجھ، جسے لادے ہوئے ہم جنگ سے نکل رہے ہیں ہماری اُن قربانیوں اور جفا کشیوں کا بڑا ہی عجیب صلہ ہے جو ہم نے مشترک مقصد کے لیے برداشت کیں، اس نرالے ستم ظریفانہ انعام پر آئندہ زمانہ کے مؤرخین ہی کچھ بہتر رائے زنی کر سکیں گے۔۔۔ ہم نے درخواست کی تھی کہ ہم کو قرضِ حَسَن دیا جائے، مگر جواب میں ہم سے کہا گیا کہ یہ عملی سیاست نہیں ہے‘‘۔

یہ سود کا فطری اثر اور اُس کا لازمی نفسیاتی ردِّعمل ہے جو ہمیشہ ہر حال میں رونما ہو گا ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ یہ معاملہ کرے یا ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ۔ انگلستان کے لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور آج بھی وہ اُسے نہیں مانتے کہ انفرادی معاملات میں سودی لین دین کوئی بری چیز ہے۔ آپ کسی انگریز سے بلا سودی قرض کی بات کریں وہ فوراً آپ کو جواب دے گا کہ جناب یہ عملی کاروبار (Practical Business) کا طریقہ نہیں ہے۔ لیکن جب اس کی قومی مصیبت کے موقع پر اس کی ہمسایہ قوم نے اس کے ساتھ یہ ’’عملی کاروبار‘‘ کا طریقہ برتا تو ہر انگریزچیخ اٹھا اور اس نے تمام دنیا کے سامنے اس حقیقت پر گواہی دی کہ سُود دلوں کو پھاڑنے والی اور تعلقات کو خراب کرنے والی چیز ہے۔

معاشی نقصانات

اب اس کے معاشی پہلو پر نگاہ ڈالیے۔ سود کا تعلق معاشی زندگی کے اُن معاملات سے ہے جن میں کسی نہ کسی طور پر قرض کا لین دین ہوتا ہے۔ قرض مختلف اقسام کے ہوتے ہیں:

ایک قسم کے قرضے وہ ہیں جو حاجت مند لوگ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے لیتے ہیں۔

دوسری قسم کے قرضے وہ ہیں جو تاجر اور صناع اور زمیندار اپنے نفع آور کاموں میں استعمال کرنے کے لیے لیتے ہیں۔

تیسری قسم ان قرضوں کی ہے جو حکومتیں اپنے اہل ملک سے لیتی ہیں اور اُن کی نوعیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض قرضے غیر نفع آور اغراض کے لیے ہوتے ہیں، مثلاً وہ جو نہیں اور ریلیں اور برقِ آبی کی اسکیمیں جاری کرنے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں۔

چوتھی قسم اُن قرضوں کی ہے جو حکومتیں اپنی ضروریات کی خاطر غیر ممالک کے بازارِ زر سے لیتی ہیں۔

ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ لے کر ہمیں دیکھیں گے کہ اس پر سود عائد ہونے کے نقصانات کیا ہیں۔

اہلِ حاجت کے قرضے

دنیا میں سب سے بڑھ کر سود خواری اُس کاروبار میں ہوتی ہے جو مہاجنی کاروبار (Mony Lending Business) کہلاتا ہے۔ یہ بَلا صرف برعظیم ہند تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایک عالم گیر بَلا ہے جس سے دنیا کا کوئی ملک بچا ہوا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی یہ انتظام نہیں ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو اُن کی ہنگامی ضروریات کے لیے آسانی سے قرض مل جائے اور بلا سُود نہیں تو کم از کم تجارتی شرح سُود ہی پر نصیب ہو جائے۔ حکومت اسے اپنے فرائض سے خارج سمجھتی ہے۔ سوسائٹی کو اس ضرورت کا احساس نہیں۔ بینک صرف اُن کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہیں جن میں ہزاروں لاکھوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں اور ویسے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک قلیل المعاش آدمی اپنی کسی فوری ضرورت کے لیے بینک تک پہنچ سکے اور اس سے قرض حاصل کر سکے۔ ان وجوع سے مزدور، کسان، چھوٹے چھوٹے کاروباری آدمی، کم تنخواہوں والے ملازم اور عام غریب لوگ ہر ملک میں مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے بُرے وقت پر اُن مہاجنوں سے قرض لیں جو اپنی بستیوں کے قریب ہی ان کو گدھ کی طرح شکار کی تلاش میں منڈلاتے ہوئے مل جاتے ہیں۔ اس کاروبار میں اتنی بھاری شرح سود رائج ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ سودی قرض کے جال میں پھنس جاتا ہے وہ پھر اس سے نہیں نکل سکتا، بلکہ دادا کا لیا ہوا قرض پوتوں تک وراثت میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے اور اصل سے کئی گنا سود ادا کر چکنے پر بھی اصل قرض کی چٹان جُوں کی توں آدمی کے سینے پر دھری رہتی ہے۔ پھر بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر قرض دار کچھ مدت تک سود ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو چڑھے ہوئے سود کی رقم کو اصل میں شامل کر کے وہی مہاجن اپنا ہی قرض و سود وصول کرنے کے لیے اسی شخص کو ایک اور بڑا قرض زیادہ شرح سود پر دے دیتا ہے اور وہ غریب پہلے سے زیادہ زیر بار ہو جاتا ہے۔ انگلستان میں اس کاروبار کی کم سے کم شرح سود ۴۸ فیصدی سالانہ ہے جو ازروئے قانون دلوائی جاتی ہے۔ لیکن عام شرح جس پر وہاں یہ کاروبار چل رہا ہے ۲۵۰ سے ۴۰۰ فیصدی سالانہ تک ہے اور ایسی مثالیں بھی پائی گئی ہیں جن میں بارہ تیرہ سو فیصدی سالانہ پر معاملہ ہوا ہے۔ امریکا میں مہاجنوں کے لیے قانونی شرح سود ۳۰ سے ۶۰ فیصدی سالانہ تک ہے، لیکن ان کا عام کاروبار ۱۰۰ سے ۲۶۰ فیصدی تک سالانہ شرح پر ہو رہا ہے اور بارہا یہ شرح ۴۸۰ فیصدی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ خود ہمارے اس برّعظیم میں بڑا ہی نیک طبع ہے وہ مہاجن کو کسی غریب کو ۴۸ فیصدی سالانہ پر قرض دے دے، ورنہ عام شرح ۷۵ فیصدی سالانہ ہے جو بارہا ۱۵۰ فیصدی تک بھی پہنچ جاتی ہے، بلکہ ۳۰۰ اور ۳۵۰ فیصدی سالانہ شرح کی مثالیں بھی پائی گئی ہیں۔

یہ وہ بلائے عظیم ہے جس میں ہر ملک کے غریب اور متوسط الحال طبقوں کی بڑی اکثریت بُری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے قلیل المعاش کارکنوں کی آمدنی کا بڑا حصہ مہاجن لے جاتا ہے۔ شب و روز کی اَن تھک محنت کے بعد جو تھوڑی سی تنخواہیں یا مزدوریاں اُن کو ملتی ہیں ان میں سے سُود ادا کرنے کے بعد ان کے پاس اتنا بھی نہیں بچتا کہ وہ دو وقت کی روٹی چلا سکیں۔ یہ چیز صرف یہی نہیں کہ ان کے اخلاق کو بگاڑتی اور انہیں جرائم کی طرف دھکیلتی ہے اور صرف یہی نہیں کہ ان کے معیار زندگی کو پست اور ان کی اولاد کے معیارِ تعلیم و تربیت کو پست تر کر دیتی ہے بلکہ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ دائمی فکر اور پریشانی ملک کے عام کارکنوں کی قابلیت کار کو بہت گھٹا دیتی ہے اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی محنت کا پھل دوسرا لے اڑتا ہے تو اپنے کام سے ان کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے سودی کاروبار کی یہ قسم صرف ایک ظلم ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اجتماعی معیشت کا بھی بڑا بھاری نقصان ہے۔ یہ کیسی عجیب حماقت ہے کہ جو لوگ ایک قوم کے اصل عاملین پیدائش ہیں اور جن کی محنتوں ہی سے وہ ساری دولت پیدا ہوتی ہے جس پر قوم کی اجتماعی خوشحالی کا مدار ہے، قوم ان پر بہت سی جونکیں مسلّط کیے رکھتی ہے جو ان کا خون چوس چوس کر ان کو نڈھال کرتی رہتی ہیں۔ تم حساب لگاتے ہو کہ ملیریا سے اتنے لاکھ عملی گھنٹوں کا نقصان ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ملک کی معاشی پیداوار میں اتنی کمی واقع ہوتی ہے۔ اس بناء پر تم مچھروں پر پِل پڑتے ہو اور ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ لیکن تم اس کا حساب نہیں لگاتے کہ تمہارے سود خوار مہاجن تمہارے لاکھوں کارکنوں کو کتنا پریشان، کتنا بد دل اور کتنا افسردہ کرتے رہتے ہیں۔ کس قدر ان کے جذبۂ عمل کو سرد اور قوت کار کو کم کر دیتے ہیں اور اس کا کتنا بُرا اثر تمہاری معاشی پیداوار پر مترتب ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں تمہارے التفاتِ معکوس کا حال یہ ہے کہ تم ان مہاجنوں کا قلع قمع کرنے کے بجائے اُلٹا ان کے قرض داروں کو پکڑتے ہو اور جو خون مہاجن خود ان کے اندر سے نہیں سونت سکتا اُسے تمہاری عدالتیں نچوڑ کر مہاجن کے حوالے کر دیتی ہیں۔

اس کا دوسرا معاشی نقصان یہ ہے کہ اس طرح غریب طبقے کی رہی سہی قوتِ خریداری بھی سود خوار ساہوکار چھین لے جاتا ہے۔ لاکھوں آدمیوں کی بے روزگاری اور کروڑوں آدمیوں کی ناکافی آمدنی پہلے ہی تجارت و صنعت کے فروغ میں مانع تھی۔ اس پر تم نے اچھی آمدنیاں رکھنے والوں کو یہ راستہ دکھایا کہ وہ خرچ نہ کریں بلکہ زیادہ سے زیادہ رقم پس انداز کیا کریں۔ اس سے کاروبار کو ایک نقصان اور پہنچا۔ اب اس سب پر مستزاد یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں غریب آدمیوں کو ناکافی تنخواہوں اور مزدوریوں کی شکل میں جو تھوڑی بہت قوّتِ خریداری حاصل ہو جاتی ہے اس کو بھی وہ اپنی ضروریات زندگی خریدنے میں استعمال نہیں کرنے پاتے، بلکہ اس کا ایک بڑا حصہ ساہوکار ان سے چھین لیتا ہے اور اس کو اشیاء اور خدمات کی خریداری پر صرف کرنے کے بجائے سوسائٹی کے سر پر مزید سود طلب قرض چڑھانے میں استعمال کرتا ہے۔ ذرا حساب لگا کر دیکھیے اگر دنیا میں ۵کروڑ آدمی بھی ایسے ہیں جو مہاجنوں کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ اوسطاً دس روپے مہینہ سود ادا کر رہے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر مہینے ۵۰ کروڑ روپے کا مال فروخت ہونے سے رہ جاتا ہے اور اتنی بھاری رقم معاشی پیداوار کی طرف پلٹنے کے بجائے مزید سودی قرضوں کی تخلیق میں ماہ بہ ماہ صرف ہوتی رہتی ہے3؎ ۔

۱؎ سوویت روس کے تازہ ترین قانونِ وراثت میں اولاد، بیوی، شوہر، والدین، بھائیوں، بہنوں اور متبنیٰ کو وارث ٹھہرایا گیا ہے۔ نیز یہ قاعدہ بھی مقرر کیا گیا ہے کہ آدمی اپنا ترکہ اپنے حاجت مند قریبی رشتہ داروں اور پبلک اداروں میں تقسیم کرنے کی وصیت کر سکتا ہے مگررشتہ داروں کا حق مقدم ہے۔ اس کے ساتھ ایسی وصیت ممنوع ٹھہرائی گئی ہے جس کا مقصود نابالغ اولاد یا غریب وارثوں کو حقِ وراثت سے محروم کرنا ہو۔ اس قانون کو دیکھ کر کوئی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اشتراکی ’’ترقی پسندوں‘‘ نے ۱۹۴۵ء میں اس قانون کی طرف ’’رجعت‘‘ فرمائی ہے جو ۶۲۵ء میں بنایا گیا تھا۔

2؎ اس موقع پر ایک شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ پھر تم زمین کے لگان کو کس طرح جائز ٹھہراتے ہو جب کہ اس کی پوزیشن بھی بعینہٖ سود کی سی ہے؟ مگر درحقیقت یہاعتراض ان لوگوں پر وارد ہوتا ہے جو زمین کے نقد لگان مثلاً ۲۰ روپیہ بیگھ یا ۵۰ روپیہ ایکڑ کے حساب سے پیشگی معین کر لینے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ میں اس چیز کا قائل نہیں ہوں، بلکہ میں خود بھی اسے سود سے مشابہ سمجھتا ہوں، اس لیے اس اعتراض کا جواب میرے ذمہ نہیں ہے میرا مسلک یہ ہے کہ مالک زمین اور کاشتکار کے درمیان معاملہ کی صحیح صورت بٹائی ہے، یعنی یہ کہ جتنی پیداوار ہو گی اس کا اتنا حصہ زمیندار کا اور اتنا کاشتکار کا۔ یہ معاملہ تجارتی حصہ داری سے مشابہ ہے اور اس کو میں جائز سمجھتا ہوں رہا کرایہ زمین تو اس کی جو صورت میرے نزدیک جائز ہے اسے میں نے اپنی کتاب ’’مسئلہ ملکیت زمین‘‘ میں بیان کر دیا ہے اور اس پر یہ اعتراض وارد نہیں ہو سکتا۔

3؎ اس جگہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ۱۹۴۵ء میں قبل تقسیم کے ہندوستان کے متعلق اندازہ کیا گیا تھا کہ اس ملک کے مہاجنی قرضے کم از کم دس ارب روپے تک پہنچے ہوئے تھے۔ یہ صرف ایک ملک کا حال ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا میں اس نوعیت کے قرضوں کی مجموعی مقدار کیا ہو گی اور جو شرح سود اس کاروبار میں رائج ہے اس کے لحاظ سے ماہانہ کس قدر سود مہاجنوں کے پاس پہنچتا ہو گا۔

Categories

پاکستان

Scroll to Top